حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی
حضرت شیخ احمدسرہندی
رحمتہ اللہ علیہ
حضرت شیخ عبدالاحد رحمتہ اللہ علیہ جو اپنے زمانے کے بہت بڑے کامل ولی تھے انہوں نےرات کو خواب دیکھاکہ تمام جہان میں ظلمت پھیل گئی ہے۔ سور، بندر اور ریچھ لوگوں کو ہلاک کررہے ہیں۔ اسی اثنا میں میرے سینے سے ایک نور نکلا اور اس میں ایک تخت ظاہر ہوا۔ اس تخت پر ایک شخص تکیہ لگائے بیٹھا ہے اور اس کے سامنے تمام ظالموں، زندیقوں اور ملحدوں کو بکرے کی طرح ذبح کررہے ہیں اور کوئی شخص بلند آواز میں کہہ رہا ہے۔
” وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا “
”اور فرما دیجئے حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بیشک باطل مٹنے والا ہے“۔
اس کے بعد آپ کی آنکھ کھل گئی اور پھر آپ حضرت شیخ شاہ کمال کیتھلی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئےاور اپنا خواب بیان کیا اور آپ سے تعبیر پوچھی ۔ آپ نے فرمایا تمہارے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا جس سے الحاد و بدعت کی تاریکی دور ہوگی۔ اور وقت نے ثابت کیا کہ یہ تعبیر حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اور صرف آپ کے لخت جگر نور نظر حضرت مخدوم شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے الحاد و بدعت اور شرک و کفر کو ختم کیا۔ آپ کی ولادت باسعادت شہر سرہند کی پاک سرزمین پر شب جمعۃ المبارک 14 شوال 971ھ بمطابق 1564ء کو ہوئی۔ آپ کا سلسلۂ نسب 32 بتیسویں پشت پر جاکر سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مل جاتا ہے۔ اس کا اظہار آپ نے اپنے مکتوب شریف میں فرمایا ہے۔ آپ کا نام مبارک ”احمد“ رکھا گیا۔ آپ دسویں صدی کے واحد بزرگ ہیں کہ جن کے اشارے احادیث نبویہ میں بھی ملتے ہیں۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ بچپن میں نہایت سرخ و سفید تھے۔ ایک مرتبہ بیمار ہوگئے اور بیماری اس قدر بڑھی کہ آپ نے ماں کا دودھ پینا چھوڑ دیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگے۔ سب گھر والے آپ کی زندگی سے مایوس ہوکر مغموم اور پریشان ہوگئے۔ لیکن خداوند قدوس نے تو آپ سے ایک عظیم کام لینا تھا۔ ابھی تو اس سورج کو نصف النہار پر چمکنا تھا۔ اس لئے حضرت خواجہ شاہ کمال کیتھلی رحمتہ اللہ علیہ آپ کے گھر تشریف لائے، گھر والوں نے آپ کی آمد کو رحمت خداوندی کا باعث جانا اور حضرت کو اٹھاکر اسی حالت میں آپ کی گود میں ڈال دیا۔ حضرت شاہ صاحب نے اپنی زبان فیض ترجمان بچے کے منہ میں دیدی۔ آپ نے اسی اچھی طرح چوسنا شروع کردیا۔ اس کے بعد حضرت شاہ کمال کیتھلی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ ”مطمئن رہو، اس بچے کی عمر بڑی ہوگی، اللہ تعالیٰ اس سے بہت کام لینا چاہتا ہے۔ میں آج اس کو اپنا بیٹا بناتا ہوں۔ یہ میری طرح ہی ہوگا۔“ اسی اثنا میں آپ کو مکمل صحت یابی حاصل ہوگئی۔
اکثر سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ حضرت مجدد نے اوائل عمر ہی میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔ لیکن آپ کے ایک مکتوب سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دولت قلعہ گوالیار میں نظربندی کے زمانے میں حاصل ہوئی۔ اس کے بعد اپنے والد ماجد شیخ الاسلام حضرت شیخ عبدالاحد کے مکتب سے آپ نے اس وقت کے مروجہ علوم و فنون کی تحصیل شروع کردی اور مختلف علوم و فنون کی کتابیں پڑھیں۔ مزید تدریس کے لئے آپ سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے حضرت علامہ مولانا کمال کشمیری علیہ الرحمۃ سے معقولات اور سند لی، قاضی بہلول بدخشی علیہ الرحمۃ سے مختلف تفاسیر اور احادیث شریفہ کا درس لیا۔
تحصیل علم سے فارغ ہونے کے بعد حضرت مجدد آگرے تشریف لے گئے اور وہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ آپ کے حلقہ درس میں فضلائے وقت شریک ہوتے تھے۔ یہ سلسلہ کافی عرصہ تک چلا۔ آپ کے والد ماجد مخدوم حضرت شیخ عبدالاحد رحمتہ اللہ علیہ آپ سے بڑی محبت رکھتے تھے، وہ آپ کے فراق میں بے چین ہوگئے اور باوجود ضعف و کبرسنی سرہند شریف سے آگرے آگئے اور حضرت مجدد کو اپنے ساتھ ہی سرہند شریف لے گئے۔ سرہند شریف جاتے ہوئے راستے میں جب تھانیسر پہنچے تو وہاں کے رئیس شیخ سلطان کی لڑکی سے حضرت مجدد کا عقد مسنونہ ہوگیا۔
حضرت مجدد نے ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ باطنی علوم یعنی معرفت الٰہیہ کے لئے بھی سعی فرمائی اور متعدد شیوخ سے مختلف سلاسل طریقت میں اجازت و خلافت حاصل فرمائی۔ سلسلۂ چشتیہ اور سلسلہ سہروردیہ میں اپنے والد ماجد حضرت شیخ عبدالاحد رحمتہ اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل فرمائی۔ سلسلۂ قادریہ میں حضرت شاہ سکندر رحمتہ اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل فرمائی اور سلسلۂ نقشبندیہ میں خواجۂ خواجگان حضرت خواجہ باقی باللہ رحمتہ اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل فرمائی۔
آپ کو حج بیت اللہ شریف اور زیارت روضۂ اقدس رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کا شوق مدت سے دامنگیر تھا۔ لیکن والد ماجد کی کبرسنی کے باعث اس ارادے کو ملتوی رکھا۔ لیکن جب 27 جمادی الآخر 1007ھ بمطابق 1598ء میں اسی سال کی عمر مبارک میں والد ماجد واصل بحق ہوئے تو اس کے دوسرے سال آپ نے قصدِ حج فرمایا اور سرہند شریف سے روانہ ہوئے۔ جب دہلی پہنچے تو مولانا حسن کشمیری نے جو آپ کے دوستوں میں سے تھے حضرت خواجہ باقی باللہ رحمتہ اللہ علیہ کی بہت تعریف و توصیف فرمائی تو آپ کے دل میں اشتیاق پیدا ہوا اور حضرت خواجۂ خواجگان محمد باقی باللہ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ خواجہ صاحب کی طبیعت مبارک بڑی غیور تھی۔ وہ خود کسی کو اپنی طرف متوجہ نہیں فرماتے تھے۔ لیکن یہاں معاملہ برعکس تھا۔ کیونکہ طالب خود مطلوب اور مرید خود مراد تھا۔ یعنی حضرت خواجہ صاحب نے استخارہ میں جس طوطی کو دیکھا تھا اور اس کی وجہ سے آپ نے ہندوستان کا سفر فرمایا تھا، اس وقت حضرت مجدد صاحب کی صورت میں آپ کے سامنے موجود تھا۔ اسی لئے حضرت خواجہ باقی باللہ علیہ الرحمۃ کا قول ہے کہ ”ہم نے پیری مریدی نہیں کی بلکہ ہم تو کھیل کرتے رہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا بڑا کرم و احسان ہے کہ ہمارے کھیل اور دکانداری میں گھاٹا نہیں رہا، ہم کو شیخ احمد جیسا صاحب استعداد شخص مل گیا“۔ یہی وجہ ہے کہ خود مرشد برحق نے بڑھ کر مرید و مراد صادق سے فرمایا کہ آپ کچھ عرصہ ہمارے پاس قیام فرمائیں۔ حضرت مجدد بخوشی رضامند ہوگئے۔ مجدد صاحب کی اعلیٰ فطری استعداد اور قوی النسبت مرشد کی خصوصی توجہ سے وہ روحانی احوال و مقامات جو برسوں کے مجاہدے سے حاصل ہوتے ہیں دنوں میں حاصل ہوگئے۔ روحانی منازل میں آپ کی اس استعداد کو دیکھ کر مرشدِ روشن ضمیر کو یقین ہوگیا کہ یہی وہ طوطئ خوشنوا ہے کہ جس کی خوشنوائی سے ہندوستان کیا بلکہ پورے عالم اسلام کے چمنستان میں تازہ بہار آئے گی۔
حضرت خواجہ باقی باللہ رحمتہ اللہ علیہ نے تمام روحانی نسبتیں اور بشارتیں حضرت مجدد صاحب کو تفویض فرمادیں اور اپنے حلقے سے متعلق طالبین کو ہدایت کی کہ وہ اب میری بجائے مجدد صاحب کی طرف رجوع کریں اور آپ کو سجادگی و ارشاد و تربیت کی اجازت عطا فرمائی۔ دسویں صدی ہجری کے اختتام کا ہندوستان بڑی تیزی سے ایک ہمہ پہلو دینی، تہذیبی اور ذہنی ارتداد کی طرف بڑھ رہا تھا اور اس شیطانی تحریک کی پشت پر اپنے دور کی مضبوط ترین سلطنت اور فوجی طاقت کے ساتھ اپنے وقت کے متعدد ذہن افراد کی علمی اور ذہنی کمک بھی موجود تھی۔ ان حالات میں اگر کوئی ذہین، روحانی اور علمی میدان میں طاقتور شخصیت راستہ روکنے کے لئے کھڑی نہ ہوتی تو اسلام کی حقیقت ختم ہوجاتی۔ ہندوستان کے اس وقت کے حالات کا اندازہ آپ کے ایک مکتوب سے ہوتا ہے جو آپ نے ایک مرید جو کہ دربار اکبری سے وابستہ تھے حضرت سید فرید بخاری علیہ الرحمۃ کے نام لکھا ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ
عہد اکبری میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ کفار غالب تھے اور اعلانیہ دار الاسلام میں کفر کے احکامات جاری کرتے تھے اور مسلمان اپنے دین پر عمل کرنے سے عاجز تھے۔ وہ اگر ایسا نہ کرتے تو قتل کردیئے جاتے۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم اگرچہ رب العالمین کے محبوب ہیں، مگر عہد اکبری میں آپ کی تصدیق کرنے والے ذلیل و خوار تھے اور آپ کے منکر صاحب عزت و افتخار مسلمان زخمی دلوں کے ساتھ اسلام کی زبوں حالی پر تعزیت اور اس کی بربادی پر ماتم کررہے تھے۔ اور اسلام کے دشمن طنز و استہزا سے ان کے زخموں پر نمک چھڑک رہے تھے۔
اس خط سے اکبر کی حکومت کے دور میں اسلام کی زبوں حالی کا نقشہ ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔ اور اسی موضوع پر آپ کے متعدد مکتوبات شریف ہیں۔ یہ مکتوب جہاں اکبر کے دور کی عکاسی کرتا ہے تو وہیں ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ ہندوستان میں اسلامی معاشرے کی باگ ڈور ہمیشہ تین طبقوں کے ہاتھ رہی ہے، وہ اگر ہدایت پر رہے تو معاشرے میں تعمیر و ترقی اور نیکی و بھلائی کو فروغ حاصل ہوا، وہ بگڑے تو پورے معاشرے میں فساد پھیل گیا۔ وہ یہ ادارے یہ تھے۔
1۔ دار العلوم یعنی مکاتیب و مدارس۔
2۔ خانقاہی یعنی روحانی و باطنی علوم و معارف کے مرکز۔
3۔ حکومت کہ جس کے ہاتھ میں ملک کی پوری سیاسی قوت تھی۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے ان تینوں اداروں یا طبقوں کی اصلاح فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں اسلامی تشخص کو بچانے کا کام حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی کی جامع کمالات شخصیت سے لیا۔ آپ کے اصلاحی کام کا سب سے اہم اور بنیادی نکتہ نبوی محمدی اور اس کی ابدیت و ضرورت پر امت مسلمہ میں اعتقاد بحال کرنا اور اسے مضبوط و مستحکم کرنا تھا۔ یہی آپ کا سب سے بڑا انقلابی کارنامہ ہے جو اس سے قبل کسی مجدد نے نہیں کیا۔
اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید آپ کی شامل حال تھی۔ آپ نبوی محمدی علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام پر ایمان پر تجدید کی کنجی سے وہ بھاری بھرکم قفل کھول دیتے جو یونانی اور ایرانی فلسفے اور مصری و ہندوستانی اشراقیت نے ایجاد کئے تھے۔آپ نے اصلاح و تجدید کیلئے جو طریقۂ کار وضع کئے ان میں سب سے پہلے آپ نے دینی علوم کی ترویج و اشاعت اور تعلیم و تدریس کو لیا، جس کی ابتدا آپ نے اپنے والد ماجد کے مدرسہ سے کی۔ دینی علوم کے طلباء و شائقین کی ذہن سازی فرمائی اور اس کے ساتھ ہی باطنی اصلاح بھی۔
دوسرے نمبر پر آپ کا طریقۂ کار یہ تھا کہ صوفیائے کرام کے طریقے پر انفرادی رابطے کو مضبوط کرنا۔ آپ نے سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں لوگوں کی بیعت کرکے ان سے فسق و فجور سے توبہ کرائی اور آئندہ تقویٰ کے مطابق زندگی گذارنے کی تلقین فرمائی۔ آپ کی روحانی توجہ و تصرف سے ہزاروں افراد فسق و فجور سے نکل کر تقویٰ کی شاہراہ پر گامزن ہوگئے۔ اور بالخصوص علماء کرام میں ایک انقلاب پیدا ہوگیا اور آپ نے بندگان خدا کی تعلیم و تربیت کیلئے اپنے تربیت یافتہ افراد کو ہندوستان کے مختلف شہروں میں بھیجا۔
تجدید دین میں آپ کے طریقۂ کار کا تیسرا پہلو آپ کے مکتوبات شریف ہیں جنہوں نے مشعل راہ کا کام دیا۔ جو شریعت و طریقت کے اسرار و رموز کے جامع ہیں۔ ان کے ایک ایک لفظ سے اقامت دین، تعظیم شریعت، ترویج سنت اور رد بدعت کیلئے آپ کی تڑپ اور دلسوزی ظاہر ہوتی ہے۔ آپ کی تعلیمات اور مجددانہ طریقہ کار کو جاننے اور سمجھنے کیلئے مکتوبات شریف قابل اعتماد اور مستند ذریعہ ہیں۔
سنہ 1012ہجری میں جب آپ نے دعوت و اصلاح کا کام شروع کیا اس وقت مغل بادشاہ اکبر کا دورِ حکومت تھا جس کی بے دینی اور اسلام دشمنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ اس کے درباری علماء نے اسے دین الٰہی کے نام سے اسلام سے ہٹ کر مذہب گھڑ دیا تھا کہ جو سراسر گمراہی کی طرف لے جاتا تھا۔ دین الٰہی یا دین اکبری کی بنیاد سراسر اسلام دشمنی پر تھی، جس کے پیروکار نبوی، وحی، حشر و نشر، جنت و دوزخ کا مذاق اڑاتے تھے، قرآن کا خدا کی طرف سے نازل ہونا مشکوک گردانتے تھے۔ زندگی بعد موت ناممکن اور عقیدہ تناسخ کو عین ممکن سمجھا جانے لگا۔ کلمۂ توحید کو بدل کر ’محمد رسول اللہ‘ (صلّی اللہ علیہ وسلم) کی جگہ ’اکبر خلیفۃ اللہ‘ تجویز کیا گیا۔ اس دین کو قبول کرنے کیلئے دین اسلام سے توبہ ضروری تھی۔ سجدۂ تعظیمی کو جائز قرار دیا گیا۔ اسلام کی ضد میں سود، جوا اور شراب نوشی جیسے قبیح افعال حلال قرار پائے اور خنزیر کو مقدس سمجھا جانے لگا۔
گائے کا گوشت حرام قرار پایا۔ مردوں کو دفنانے کے بجائے جلادیا جاتا یا پانی میں بہا دیا جاتا۔ چچازاد اور ماموں زاد سے نکاح ممنوع ٹھہرا۔ ایک سے زیادہ بیویاں نکاح میں رکھنا قابلِ تعزیر جرم ٹھہرا۔ آتش پرستی اور سورج کی پرستش جائز قرار پائی۔ یعنی یہ دین سراسر اسلام اور مسلمین کے خلاف تھا۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ دربار اکبری میں بعض بااثر حضرات دین الٰہی کے خلاف اور اکبر کی غیر اسلامی پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان میں بعض تو حضرت خواجہ باقی باللہ رحمتہ اللہ علیہ کے حلقہ بگوش بھی تھے۔ آپ نے انہی افراد کو نظامِ حکومت کی اصلاح کا ذریعہ بنایا۔ اکبر کے انتقال کے بعد جہانگیر کی تخت نشینی کے وقت آپ نے ان افراد سے کام لیا۔ ان افراد نے جہانگیر کی تاج پوشی سے پہلے اس سے عہد لیا کہ حدود سلطنت میں شراب اور نشہ آور چیزیں تیار اور فروخت نہ کی جائیں۔ کسی بھی جرم میں آدمی کے ناک اور کان نہ کاٹے جائیں، کوئی سرکاری عہدیدار معاوضہ ادا کئے بغیر رعایا کے کسی مکان میں رہائش اختیار نہ کرے، ہر بڑے شہر میں شفاخانے بنائے جائیں۔ اور ان کے علاوہ بھی شقیں تھیں، یعنی پورا بارہ نکاتی فارمولا تھا۔ حضرت مجدد نے حکومت کے ان دیندار طبقہ سے رابطہ بحال رکھا اور مختلف مواقع پر خطوط ارسال فرماتے رہے جو کہ مکتوبات شریف میں موجود ہیں۔
جہانگیر کی طبیعت میں اسلام سے عداوت کے بجائے اس سے خوش عقیدگی کا رجحان تھا۔ اس لئے حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے حلقے سے تعلق رکھنے والے محب اسلام امراء کے بروقت نیک اور مفید مشورے بڑی حد تک کارگر ثابت ہوئے اور حکومت کا رخ اسلام دشمنی سے ہٹ گیا۔ لیکن آپ پوری مسلم حکومت کو اسلام کا خادم بنادینا چاہتے تھے۔ اس کا موقع آپ کو 1028ھ میں مل گیا۔ کیونکہ اس وقت آپ شہرت کی بلندیوں پر تھے۔ خواص و عوام کا رجوع آپ کی طرف تھا۔ کچھ آپ کی شہرت اور کچھ امرا کی سرگوشیوں نے جہانگیر کو وہم میں مبتلا کردیا اور اس نے آپ کو دربار شاہی میں طلب کرنے کا فرمان جاری کردیا۔ آپ دربار شاہی تشریف لے گئے اور مسنونہ طریقہ پر السلام علیکم کہا اور تشریف فرما ہوگئے۔ جہانگیر کو بداندیشوں نے بہکایا کہ انہوں نے آداب شاہی ادا نہیں کئے۔ جہانگیر نے آپ کو آداب شاہی کے مطابق سجدۂ تعظیمی کا حکم دیا لیکن آپ نے ببانگ دہل فرمایا میں نے خدائے واحد کے سوا کسی کو سجدہ کیا ہے اور نہ کروں گا
جہانگیر کو آپ کی یہ بات پسند نہ آئی اور آپ کو قلعہ گوالیار کی جیل میں بھیج دیا۔ آپ نے وہاں پر ہزاروں غیر مسلم قیدیوں کو فیض محمدی کا جام پلایا جو آپ کی تربیت اور نظر کیمیا اثر سے مسلمان ہوگئے۔ آپ نے ایک سال تک اسیری کے ایام کاٹے۔ اس دوران جہانگیر کو نبی پاک صلّی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور آپ نے ارشاد فرمایا جہانگیر تم نے کتنے بڑے شخص کو قید میں ڈال دیا ہے۔ اس خواب سے بیداری کے بعد اس نے فورًا ہی آپ کی رہائی کے احکامات جاری کردیئے اور آپ رہا ہوکر بادشاہ کے ساتھ ہی رہے اور بادشاہ اور اس کے لشکریوں کی اصلاح فرمائی۔ جہانگیر نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت فرمائی اور شباب و کباب سے توبہ کی اور اس طرح آپ نے شعار اسلام کو بادشاہ کے ذریعہ زندہ کردیا۔ آپ نے علوم شرعیہ کی ترویج و اشاعت کے لئے جو درس و تدریس کا سلسلہ قائم فرمایا تھا وہ ابتک برصغیر میں قائم و دائم ہے اور محبت الٰہی و عشق رسول کی چنگاریاں روشن کرنے میں مصروف ہے۔ آپ کا یہی مثالی اور تاریخ ساز کارنامہ آپ کو مجدد الف ثانی بنانے کا باعث بنا۔ اور یہ لقب بارگاہ الٰہی میں قبول ہوا۔ سب سے پہلے حضرت مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی علیہ الرحمۃ نے آپ کو اس لقب سے یاد کیا اور پھر معاصر علماء کرام نے بھی اسی سے آپ کو یاد کیا۔ یہی نہیں بلکہ مکتوبات شریف میں آپ نے خود بھی اپنے لئے مجدد الف ثانی کا لقب تحریر کیا۔
12 محرم 1034ھ کو آپ نے فرمایا ”مجھے بتایا گیا ہے پینتالیس دن کے اندر تمہیں اس دنیا سے دوسری دنیا کا سفر کرایا جائے گا اور مجھے قبر کی جگہ بھی دکھائی گئی ہے“۔ آپ شدید بیمار تھے۔ اسی شدید بیماری کی حالت میں اٹھ کر وضو کیا، کھڑے ہوکر تہجد کی نماز پڑھی، پھر فرمایا یہ ہماری تہجد کی آخری نماز ہے۔ 28 صفر کو چاشت کے وقت استنجا کرنے کیلئے طشت منگوایا، اس میں ریت نہ تھی، چھینٹوں کے خیال سے واپس کردیا اور فرمایا میں اپنا وضو توڑنا نہیں چاہتا، مجھے بستر پر لٹادو۔ آپ کو لٹادیا گیا۔ آپ مسنون طریقے کے مطابق اپنے دائیں رخسار کے نیچے دایاں ہاتھ رکھ کر اپنے اللہ کے ذکر میں مشغول ہوگئے اور ذکر کی اسی حالت میں حسن حقیقی کے اس باکمال عاشق کی روح جسد اقدس سے پرواز کرکے جلوۂ احدیت میں واصل ہوئی۔ بعد از وصال بھی آپ کے چہرۂ مبارک پر نورانی مسکراہٹ رہی. سرہند شریف میں آپ کا مزار پرانوار ہے جو مرجع خلائق ہے۔